Pages

Sunday, February 7, 2016

قصہ سکول جانے کا

سکول نامی جگہ سے ہماری پرانی شناسائی تھی. وہ ایسے کہ موصوف ہمارے گاوں میں نہیں بلکہ اس میں ہمارا گاوں واقع تھا. چونکہ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں دنیا کی بڑی اور انوکھی چیزیں بکثرت پائی جاتی ہیں تو یہاں یہ دعوی کر نے میں تامل کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکول تھا. اس کے علاوہ بھی چند خصوصیات ہیں (ذکر آگے آئے گا) جن کی بنا پر اس سکول کا مقام منفرد و ممتاز تھا.
گھر میں ایک عرصے سے سکول میں ہمارے داخلے کاچرچا تھا اور تیاریاں زورشور سے جاری تھیں پر اچھا زمانہ تھا سونے سے پہلے ساری فکریں بھلا دیتے تھے اور ہر صبح ایک نئی صبح ہوتی تھی. لیکن ایک دن آنکھ کھلی تو دیکھا کہ والدہ سرھانے بیٹھیں کچھ پڑھ کر ہم پر پھونک رہی ہیں. ذہن میں پہلا خیال یہی آیا تھا کہ ہم پھر سے بیمار ہوگئے ہیں. والدہ ہمیں پریشان دیکھ کر فورا معاملے کی تہ تک پہنچ گئیں اور مسکراتے ہوئے بڑے پیار سے یہ مژدہ سنایا کہ آج سکول جانا ہے جلدی اٹھ کر منہ ہاتھ دھولو. انہیں سرھانے پاکر ڈر کے مارے جس تیزی سے نیند غائب ہوئی تھی ، یہ سنتے ہی اس سے دس گنا تیزی سے دوبارہ غالب آگئی. چاروناچار اٹھنا پڑا.  ناشتے کے بعد والد صاحب کی ہم رکابی میں ایک بھاری بھر کم بستہ کندھے پر لٹکائے ، ایک ہاتھ میں تختی اور دوسرے میں تھرماس پکڑے سکول کے لیے روانہ ہوئے. اس طرح ہم باقاعدہ سکول میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ کم و بیش دس سال چلا.
ہمارا گھر گاوں کے تقریبا سرے پر تھا اور سکول کی مرکزی عمارت گھر سے قدرے دور گاوں کے درمیان میں واقع تھی. البتہ چند آوارہ مزاج کلاسیں، خانہ بدوشوں کی مانند گھنے سائے،  پھل دار درخت یا کسی اور فائدے کے حصول کے لیے اکثر و بیشتر پورے گاوں بلکہ مضافات تک میں بھٹکتی رہتیں . سکول کے اس طور پھیلنے اور سکڑنے کے پس پردہ کچھ اور عوامل بھی کارفرما تھے. مثلا سکولی دور کے دوسرے سال ہمارے ایک نوجوان اور کنوارے استاد کے عشق نے ہمیں چند مہینے ایک قبرستان میں بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور کیا. اس قصے کی تفصیل کسی اور مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں . یہاں سکول کی کثیرالجہتی کا اندازہ بھی آپ کو بخوبی ہورہا ہوگا. ابتدائی جماعت ہی سے اس نوع کی تربیت کے ذریعے طلبہ کو عملی زندگی کے لیے تیار کیا جاتا تھا. بعض اوقات استاد محترم نے گھر کے اہم امور بھی نمٹانے ہوتے تھے ، انہیں ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے کے لیے کلاس ان کے گھر کے نواحات میں چلی جاتی تھی. سکول سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک دل فریب نخلستان واقع تھا. میٹھے پانی کا ایک عدد چشمہ اور اس سے متصل ایک بڑا تالاب اس سبزہ زار کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے تھے. گرمیوں میں یہاں بیٹھ کر پڑھنا اور پڑھانا ہر طالب و استاد کی دلی تمنا ہوتی تھی. افسوس نخلستان کے مالک کو اس خواہش سے کچھ سروکار نہ تھا.  اس لیے وہ اکثر اس میں پانی چھوڑ دیتا تھا تاکہ اس کے جانور سہولت سےچر سکیں.
سکول کی وردی سستے کھدر نما ملیشیا رنگ کے کپڑے کی قمیض شلوار پر مبنی تھی. والدہ کو قلق تھا کہ گھر میں سلائی مشین کی عدم موجودگی خواہ مخواہ فضول خرچی کا سبب بن رہی ہے. حالانکہ جس خیاط سے والد صاحب کپڑے سلواتے تھے ، پورے شہر میں ان سے کم سلائی لینے والا کوئی دوسرا نہ تھا . نیز جب انہیں خبر ہوئی کہ راقم سکول میں داخل ہونے جا رہا ہے تو جذبہ خیر سگالی کے تحت سلائی میں مزید کمی کردی تھی. موصوف انسان تو بےشک اچھے تھے لیکن ان کے سلے ہوئے کپڑے اس لیے برے تھے کہ ان کے جوڑ بغیر کسی تخصیص کے کبھی بھی کھل جاتے تھے. دراصل حضرت کو اپنی کاریگری اور تجربے پر اس قدر اعتماد تھا کہ ناپ لینے کی زحمت نہیں کرتے تھے. بس نظر بھر کر دیکھ لیا اور پھر حافظے کے بل بوتے پر سوٹ تیار. قمیض کی حد تک تو یہ کجی قابل برداشت تھی پر شلوار کا معاملہ چونکہ بڑا نازک ہوتا ہے لہذا کئی بار سخت خفت اٹھانا پڑی. والد صاحب پھر بھی تبدیلئ خیاط پر راضی نہ تھے . الٹا قصوروار ہمیں ہی ٹھہراتے تھے کہ سکول میں داخل ہونے کے باوجود اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں آئی. آخرکار دوسرے سال جب آخری حربہ آزماتے ہوئے سکول جانے سے صاف انکار کردیا تب اس مشکل سے جان چھوٹی.
وردی تو والدہ نہ سی پائیں پر میرا بستہ انہوں نے بڑی محنت اور محبت سے سیا. ان کی نفاست بستے کے ڈیزائن اور پائیداری سے برابر جھلکتی تھی. پہلے میری بھی شدید خواہش تھی کہ بازار سے ایک نیا اور رنگین بستہ لیا جائے لیکن انہوں نے انتہائی خوب صورتی سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی. نتیجتا طویل مذاکرات کے بعد  میں اس شرط پر راضی ہوا کہ بستہ تیار ہونے کے بعد اگر پسند نہ کروں تو بازار سے ہی خریدا جائے گا. اس کے بعد انہوں نے کام شروع کردیا اور اپنے ہاتھوں سے ایسی سیدھی، صاف ستھری اور خوبصورت دوہری سلائی کی کہ مشین کیا کرتی. حتی کہ کئی لوگوں کو یہ ماننے میں تامل تھا کہ یہ ہاتھ کا سلا ہوا ہے. پہلے میرا پورا ارادہ یہی تھا کہ مکمل ہونے پر ناپسند کرتے ہوئے رد کردوں گا پر ان کی محبت ، محنت اور بستے کی خوب صورتی دیکھی تو قبول کر لیا. یہ بستہ مڈل سکول تک یعنی چھے سال چلا. اس کے بعد بھی اسے کچھ نہیں ہوا تھا لیکن اب کتابیں زیادہ ہوگئی تھیں. ایک عرصے تک وہ بستہ کچن میں مختلف چیزیں رکھنے کے کام آتا رہا.
اس زمانے کا رواج تھا کہ سکول میں داخلے کے وقت طالب علم کی طرف سے تمام اساتذہ کو پارٹی دی جاتی تھی. اب آج کا زمانہ تو ہے نہیں کہ بیکری سے تیار چیزیں خریدلیں لہذا والدہ نے سارے لوازمات خود تیار کیے. ایک چائے کا تھرماس اور تھیلا والد نے پکڑا، اور ایک تھرماس میں نے. چند چیزیں میرے بستے میں سمائیں. یہ مال و اسباب اٹھا کر سکول کے لیے روانہ ہوئے. والدہ دروازے تک چھوڑنے آئیں. راستے میں جو بھی ملا اس نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے نیک خواہشات ظاہر کیں. سکول پہنچا تو اسمبلی جاری تھی. لڑکے با آواز بلند لب پہ آتی پڑھ رہے تھے. ایک مدت بعد اس دعا کا مطلب واضح ہوا اور اس کے بھی کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ یہ علامہ اقبال کی نظم ہے. ہیڈماسٹر ، مشہور استاد، ماہر تعلیم محمد علی صاحب تھے. جو طلبہ میں اپنی ایک عرفیت سے جانے جاتے تھے.  انتہائی علم دوست اور اصولوں کے پابند تھے.  یقینا میرے جیسے  چند کام چوروں نے انہیں یہ عرفیت دی تھی . والد کی وجہ سے انہوں نے ہمارا استقبال بڑے تپاک سے کیا. رجسٹر میں نام کے اندراج کے بعد والد نے باقاعدہ مجھے ان کے حوالے کردیا، جس طرح تھانے والے عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کو جیلر کے حوالے کرتے ہیں. سکول کے اساتذہ کو خبر ہوچکی تھی کہ چائے پانی کا بندوبست ہے لہذا سب حاضر تھے. ہمیں ایک استاد نے کلاس کی راہ یوں دکھائی. وہ سامنے جو سفید شہتوت کا درخت دکھ رہا ہے، اس کے نیچے تمہاری کلاس ہے. ہم نے بطرف شہتوت چلنا شروع کیا . راستے میں جتنی کلاسیں ملیں، ہر ایک میں سے ایک آدھ قرابت دار یا دوست برآمد ہوا اور بغل گیر ہوکر خوشی کا اظہار کیا . اپنی کلاس میں پہنچے تو یہ دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی کہ کئی لنگوٹیے وہاں پہلے سے موجود تھے. پارٹی کے بعد والد صاحب،  استاد کے ہمراہ کلاس میں آئے . مجھے خوش دیکھ کر مطمئن ہوگئے اور یہ کہ کر کہ اب چھٹی سے پہلے گھر مت جانا، چلے گئے.

No comments:

Post a Comment