Pages

Wednesday, August 14, 2019

بلتستانی ماہرین موسمیات

غالب امکان یہی ہے کہ عنوان دیکھ کربعض قارئین کا تخیل قسم قسم کے افسانے تراشے گا۔ مثلاً بلتستان کی کسی یونیورسٹی سے ماہرین موسمیات فارغ التحصیل ہونے لگے ہیں ، یا یہاں کے کچھ نوجوانوں نے  بین القوامی سطح پر اس شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ چند بلتی اسے بھی ایک معجزہ قرار دیں۔۔
خیر ایسے خلاق ذہن رکھنے والوں یا عاشقان بلتستان سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن پکڑیں اور آگے پڑھیں۔۔ ہاں اگر آپ کے دماغ شریف میں متذکرہ بالا خیالات آئے تهے تو پهر مجهے داد ضرور دیجیے
یہ 'راز نہاں'  مجھ پر چند روز قبل کھلا تھا جب مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ موسم کی کیفیت میرے لیے کتنی اہم ہے ۔۔ حالانکہ نہ تو میں کاشتکار ہوں کہ فصل کی بویائی یا کٹائی کرنی ہے ۔ اور نہ ہی ملاح ہوں اور اگلے دن سمندری سفر پر نکلنا ہے کہ ہوا اور بادلوں کی بو سونگھتا پھروں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  میں بھی اپنے بیشتر دوستوں کی مانند ہفتوں مہینوں آسمان کی طرف نگاہ نہ کروں پر یہاں صورتحال بالکل برعکس پاتا ہوں کہ رات کو سونے سے پہلے اور علی الصبح پہلا کام کھڑکی سے جهانک کر فلک پیمائی کرنا ہے  ۔ اندر سے صورتحال اگر واضح نہ ہو پائے تو یہ کام گھر سے نکلتے ہی کرتا ہوں ۔ سونے پہ سہاگہ دن میں کئی بارآسماں بینی کا یہ فالتو عمل دہراتا بھی ہوں ۔ اپنی اس عادت کی موجودگی بلکہ بلا ضرورت موجودگی کا احساس ہوتے ہی ایک بڑے فلسفی کی طرح خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔ دوسری جانب حفظ ما تقدم کے طور پر اپنے معمولات میں تبدیلی کے لیے چند فوری اقدامات کیے ۔ یعنی پہلے تو  اس بے اختیاری فعل پر قابو پانے کی شعوری کوشش شروع کر دی اور ذہنی طور پر خود کو یہ باور بھی کرانے لگا کہ آسمان  اور اس کے متعلقات سے ہمیں کیا لینا دینا ۔۔ وغیرہ وغیرہ
اگر بات میرے اپنے تک محدود ہوتی تو شاید میں اپنی مساعی میں کامیاب ہو بھی جاتا مگر افسوس کہ مجھے بار بار منہ کی کھانا پڑی ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب بھی بلتستان سے کوئی فون آتا ہے تو سلام و دعا کے بعد پہلی بات موسم کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ مثلاً اسلام آباد کا موسم کیسا ہے ؟ یہاں تو دھوپ نکلی ہوئی ہے ۔ اور پھر اگلی بات جو کہ درحقیقت اس سارے فساد کی جڑ ہے یعنی فلائٹ کے بارے میں پوچھنا یا بتانا ۔۔ قصہ مختصر یہ کہ روزانہ کی اس اکلوتی پرواز کے معاملے میں بلتستانی اس قدر حساس ہیں کہ  چاہے کسی نے سفر کرنا ہے چاہے نہیں، لیکن آج کی اور آنے والے کل کی فلائٹ کے بارے میں آپ پیش گوئی کرنے کے لازما قابل ہوں۔
اگر آپ کا تعلق بلتستان سے ہے یا آپ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں تو پهر آپ لازما میرے ہم درد ہیں .. چلئے مل کر کسی مسیحا کو ڈهونڈتے 
ہیں۔ تب تک چاہتے یا نہ چاہتے مشق فلک پیمائی جاری رکھتے ہیں۔ 

ع
کس کو آتی ہے مسیحائی کسے آواز دوں