Pages

Sunday, February 7, 2016

سکول + بارش = چھٹی

وطن عزیز میں جاری شدید گرم اور خشک موسم کے سبب ہم وطنوں کی اچھی خاصی تعداد کافی فکرمند اور باران رحمت کے لیے حتی المقدور مصروف عمل ہے. مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں اپنی تحقیقات بھی اہل دانش (ادھر ادھر کیا دیکھتے ہیں ، آپ سے مخاطب ہوں) کے سامنے رکھا جائے. تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے.
درحقیقت اس اہم مسئلے کی جانب بچپن میں ہی ہماری توجہ مبذول ہوگئی تھی. وہ ایسے کہ ایک دن پرائمری سکول میں بارش اور چھٹی کا اٹوٹ تعلق ظاہر ہوا . (تفصیل کے لیے ہمارا مضمون 'پہلی بارش' دیکھیے) ہماری زندگی پر اس حیرت انگیز دریافت کے اثرات ویسے ہی مرتب ہوئے جس طرح سیب گرنے والے حادثے کے نیوٹن کی زندگی پر ہوئے تھے. دیکھ لیں عالی دماغوں کے شب وروز میں کس قدر مشابہت پائی جاتی یے. نیوٹن کی طرح ہم بھی اس دن سے دیوانہ وار بارش برسانے کے طریقے کھوجنے میں جت گئے . خیر یہ تو وقت نے ثابت کر دیا کہ نیوٹن کا مسئلہ ہمارے درپیش مسئلے کے سامنے ہیچ تھا. آآں ہاں.. آپ متفق نہیں ہیں . کوئی بات نہیں لیکن دیکھیے نا نیوٹن تو جب چاہے درخت پر چڑھ کر یا نیچے سے ہی ہاتھ بڑھا کر یا پتھر مار کر سیب توڑ سکتا تھا. اور لازما اس نے ایسا کیا اور خوب سیب کھائے.  اب بادل اور ہوائیں تو ہماری پہنچ سے باہر کی چیزیں تھیں. بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ قریب قریب یہ مسئلہ تو مابعد الطبیعات کا تھا.  یہاں مغرب کے ازلی تعصب کا ذکر کرنا بھی لازم ہے جو سائینس کے شعبے میں ہماری مساعی کو کسی قطار میں شمار نہیں کرتا.
افسوس کہ چوتھی جماعت میں آکر اپنی کوششیں ترک کرنا پڑیں . اور اس کی وجہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ چوتھی جماعت میں پہنچنے کا مطلب سکول کے دو عدد کمروں میں سے ایک کا حقدار ہونا تھا. لہذا مزید اس کار بیکار میں سر کھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا.
اس زمانے میں موسم کے بارے میں جاننے کے دو ہی طریقے تھے . ریڈیو کی مقامی خبریں یا ہوا گھر (محکمہ موسمیات) کے چھوڑے ہوئے رنگین غبارے . ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ مذکورہ ادارے ہماری خواہش کا پاس رکھتے ہوئے بارش کی پیشگوئی کرے . آپ کہ سکتے ہیں کہ ہماری تحقیق کو مہمیز کرنے میں ان دو اداروں کی نالائقی نے بھی برابر حصہ ڈالا .
چونکہ یہ مسئلہ قدیم سے انسانوں خصوصا طلبہ کو درپیش تھا لہذا چند بقراطیوں نے فوری بارش برسانے کے چند نسخے پہلے سے ہی گڑ رکھےتھے. ان میں سے چند تو قبول عام کے درجے پر بھی فائز تھے. ہم نے بھی ایک ایک کرکے چند نسخے آزمالیے. ایک کے مطابق کچھ لایعنی جملے چالیس صفحات پر لکھ کر آب رواں میں بہادینا تھا. ظاہر ہے یہ ساری ریاضت پڑھنے لکھنے سے جان چھڑانے کے لیے ہورہی تھی. یوں یہ نسخہ کچھ دل کو نہ بھایا.   ایک نسخہء کیمیا جو کہ شاید ہماری طبیعت کے بھی موافق تھا اور جسے  اکثر کارگر بھی پایا ، مینڈک مارنا تھا. یہاں اکثر سے مراد پورے سکولی دور میں ایک آدھ بار ہی ہے . بے شمار معصوم ڈڈوں کے قتل کا گناہ بر گردن او ہے جس نے یہ نسخہ ہمیں سجھایا تھا.  یہاں علم حیاتیات کے طلبہ لازما ہمارے احسان مند ہیں اور اس کی وجہ وہ اہم دریافت ہے جو ہم نے چلتے چلتے کی تھی کہ کیوں ایک مینڈکی بے شمار انڈے دینے کے باوجود اکثر  بے اولاد مرتی ہے ؟ . وغیرہ وغیرہ
بادلوں کے اس سیر حاصل مطالعے کے دوران آخری قابل ذکر تجربہ جس پر ہم کام کررہے تھے ، یہ تھا کہ کسی طرح ایک مصنوعی بادل بنایا جائے جو ہماری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قدرتی بادلوں کو گھیر گھار کر گمراہ کرے اور پھر سب ہمارے اشاروں پر ناچیں. یہ مفروضہ یقینا کسی فلم سے آیا تھا.
اسی قبیل کے سائنسی تجربات میں تین ساڑھے تین سال کا عرصہ جیسے پلک جھپکتے گزر گیا. اگر کچھ عرصہ مزید اسی کشمکش میں گزارتے تو لازما آج حضرت انسان بادلوں کو بھی اپنا مطیع و تابع فرمان بناچکا ہوتا. صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا ..

No comments:

Post a Comment