Pages

Friday, June 19, 2015

پہلی بارش

پرائمری سکول کی عمارت چار کمروں پر مشتمل تھی . ایک ہیڈماسٹر صاحب کا دفتر تھا اور دوسرا اساتذہ کی بیٹھک . باقی کے دو کمروں میں بڑوں کی کلاسیں ہوتی تھیں. ویسے تو یہ بڑے چوتھی اور پانچویں جماعت کے لڑکے تھے پر جب دیکھو اساتذہ اور والدین سے زیادہ ہمارے خیرخواہ بنے پھرتے تھے. حیرت انگیز طور پر یہ صاحبان کمرے جیسی نعمت پاکر کچھ زیادہ خوش نہ تھے . اس ناشکری کا راز ہم پر اس دن کھلا جب سکول میں داخل ہونے کے بعد پہلی بار بارش ہوئی . اس روز اسمبلی کے بعد ہم  اپنی کلاس یعنی سفید بے دانہ شہتوت کے نیچے پہنچ کر گیلی مٹی کے اوپر خشک ریت ڈال رہے تھے تاکہ نمی کے مضر اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکیں. تختہ سیاہ اور استاد کی کرسی لانے کی ذمہ داری اس دن جن لڑکوں کی تھی ، وہ ابھی راستے میں ہی تھے . یکایک آسمان پر کالی گھٹائیں چھا گئیں اور چشم زدن میں پانی چھم چھم برسنے لگا . استاد کی غیر موجودگی اور دستور مکتب سے ناواقفیت آڑے آئی اور بھیگنے لگے . ایسے میں بڑی فکر یہ لاحق ہوئی کہ جس تختی پر چکنی مٹی کی روشنائی سے گھر کا سارا کام لکھا ہے  اسے مٹنے سے کیسے بچائیں . اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دوسری کلاس جو ذرا دور خوبانی کے درخت کے  نیچے ہورہی تھی ، کے لڑکوں نے زور سے چھٹی کا نعرہ مارا اور تتر بتر ہوگئے . ہم ابھی کوئی فیصلہ نہیں کرپائے تھے کہ اسی کلاس کے استاد کی نظر بیٹھک کی طرف دوڑتے ہوئے ہم پر پڑی . وہ رک گئے اور چلا کر بولے 'تمہیں بارش میں بھیگنے کا کوئی خاص شوق ہے . بھاگو ' یہ سننے کی دیر تھی کہ ہم نے اس تختی کو جس کی اب تک جی جان سے حفاظت کررہے تھے ، سر پر تان لیا اور بستہ اٹھا کر دوڑ پڑے. جب ہم سکول کی عمارت کے پاس سے گزرے تب بڑوں کے کمروں پر نظر پڑی. وہاں بدستور پڑھائی جاری تھی اور سب کن اکھیوں سے گھر جانے والے خوش نصیبوں کو حسرت سے تک رہے تھے .