Pages

Friday, May 25, 2012

بچگانہ حرکتیں ۔۔۔۔۔

  میں نے ایک دن یونہی اپنے چار سالہ بھانجھے سے پوچھ لیا کہ بڑا ہوکر کیا بنے گا؟ تو اس کا فوری جواب آیا۔  "پبلک سکول کی بس کا ڈرائیور"۔۔۔  اس معصوم کا یہ بے ساختہ جواب سن کر ایک قہقہہ بلند ہوا ۔ اس کی ماں نے البتہ غصے سے اس کو گھورا ، کیونکہ ہفتہ پہلے ہی وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھیں کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا ۔ اور جب میں نے تصدیق کے لیے بھانجھے سے پوچھا کہ ڈاکٹر بن کر تو کیا کرے گا تو اس نے جواب دیا تھا ۔"سب کو ٹیکہ لگاوں گا"۔ کچھ ڈاکٹروں کو ٹیکہ لگاتے ہوئے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ بھی اسی نیک کام کو انجام دینے کے لیے ہی ڈاکٹر بنے ہیں ۔  گمان ہوتا ہے کہ اس کام میں مزہ بہت ہے یا اس کے ذریعے وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ، مہذب الفاظ میں کیتھارسس کرتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے بھانجھے میاں کو بھی یہی شغل پسند آیا تھا ۔۔  ہمارے ہاں آجکل ٹیکہ لگانے کو دھوکا دینے، نقصان پہنچانے کے مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ احتیاطاً بتا ہی دوں کہ میں نے  ان معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے اور بھانجھا تو خیر ابھی بچہ ہے ۔ 
بھانجھے کے اس نئے فیصلے کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایک دن قبل وہ اپنے والد کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کو لینے پبلک سکول گیا تھا۔ وہاں اس نے دیوہیکل بس دیکھی اور اس کے سحر میں مبتلا ہوگیا ۔۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ دنیا کا سب سے ضروری ، احسن اور دل چسپ کام بس چلانا ہے ۔ 
اسی طرح ایک عزیز کے چھے سالہ بیٹے نے ایک دن اچانک یہ مطالبہ کر کے سب کو حیران ، پریشان کردیا تھا کہ "میں نے شادی کرنی ہے"۔ اس بچگانہ بلکہ احمقانہ مطالبے کی وجہ توآپ بغیر بتائے سمجھ گئے ہوں گے ۔ یہی کہ ماضی قریب میں وہ کسی شادی میں شریک ہوا تھا ، اور وہاں دولہے میاں کی شان و شوکت دیکھ کر بے حد  مرعوب ہوا۔ 
پس ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کی ناپائیدار، فوری اور معصومانہ باتیں ، حرکتیں صرف بچوں کو ہی زیب دیتی ہیں ۔۔ افسوس کہ کچھ بچے ، بالغ اور سمجھ دار ہو کر بھی نہیں ہوتے اور بچگانہ حرکتیں بدستور جاری رکھتے  ہیں۔ نتیجتاً پھر خمیازہ بھی بھگتے ہیں ۔۔
۔۔۔ بیچارے ۔۔۔

Sunday, May 20, 2012

راجا حسین خان مقپون


 صحافی ، سماجی کارکن، سیاست دان راجا حسین خان مقپون پچھلے دنوں ایک حادثے میں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ۔ان کی ناگہانی موت سے بلاشبہ گلگت بلتستان کی صحافت اور سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جو کہ اب شاید ہی پر ہو۔
کچھ دنوں سے یہ سوچ مجھے بار بار ستارہی ہے کہ ایک ہی سکول ، کالج میں پڑھنے اور ایک ہی چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود میری ان سے فقط ایک ہی ملاقات کیوں ہوئی ۔  بے شک گزشتہ کچھ سالوں سے ہم اسلام آباد جیسے نسبتاً بڑے شہر میں رہ رہے تھے لیکن یہاں بھی کسی تقریب ، محفل میں یا سر راہ ہم کبھی نہیں ملے۔  حالانکہ دوست احباب اور جان پہچان والوں  کے علاوہ بعض ایسے لوگوں سے بھی آمنا سامنا رہتا ہے جو نہ رہے تو زیادہ اچھا ہو۔ اس بلاگ میں راجا مرحوم سے ہونے والی اس اکلوتی ملاقات کا احوال اور چند تاثرات قلمبند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کے درجات  بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے ۔ آمین

 ڈگری کالج ، سکردو شہر کا اہم اور قدیم علمی ادارہ ہے ۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہوں کہ میں نے بھی عرصہ دو سال یہاں تحصیل علم میں گزارے۔  اس ادارے کے ساتھ  یادوں کی ایک کہکشاں آباد ہے۔  دراصل باقاعدہ طالبعلم بننے سے قبل بھی ڈگری کالج سےایک تعلق قائم تھا ۔ وہ کچھ ایسے کہ گرمیوں میں جب شہر کے سارے کھیت کاشت کاری کی وجہ سے کھیلنے کے لیے دستیاب نہیں رہتے تھے تب میدانوں کی قلت پیدا ہوجاتی تھی ۔ شہر میں کھیل کے باقاعدہ میدان کم تھے اور جو تھے وہ سکولز اور کالجز میں تھے ۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ سکول یا کالج پڑھائی کے لیے تو سب کا ہوتا ہے پر شام کے وقت کھیلنے کے لیے صرف اسی محلے کے لڑکوں کا ہوتا ہے کہ جس میں وہ واقع ہو۔ اب یہ ہماری خوش بختی سمجھ لیجیے کہ ڈگری کالج ہمارے محلے میں واقع ہے یوں ڈگری کالج سے ہماری شناسائی بہت پرانی تھی۔ 
ایک دن ایک دوست کے ساتھ اس کے کسی کام سے ڈگری کالج جانا ہوا ۔ دلچسپ  بات یہ ہے کہ یہ بھی کالج میں داخل ہونے سے پہلے کا قصہ ہے ۔ میرے دوست کو کالج ہوسٹل میں مقیم کسی طالب علم سے ملنا تھا۔  اس روز پہلی بار پتہ چلا کہ ہوسٹل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ورنہ ابھی تک صرف ہوٹل سے ہی واقف تھا ، خوشگوار حیرت یہ جان کر ہوئی تھی کہ جس کالج میں بچپن سے آنا جانا ہے وہاں ہوسٹل جیسی اہم ترین شے بھی موجود ہے اور اس موجودگی سے ہم یکسر بےخبر رہے۔ ہاسٹل دیکھ کر یہ خوشی یا حیرت شاید اس لیے ہوئی تھی کہ ہماری آنے والی زندگی میں اس نے اہم کردار ادا کرنا تھا۔
جب ہم اپنے میزبان کے کمرے میں پہنچے تب وہاں چار لڑکے سر جوَڑے لوڈو کھیل رہے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر ہمارا میزبان اس مقابلے سے دستبردار ہوا اور ہم سے گپ شپ شروع کردی۔  گفتگو ابھی شروع ہوِئی تھی کہ ایک دبلا پتلا ، پھرتیلا  لڑکا گاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔  پتہ  یہ چلا کہ یہ سب میرے دوست کے کلاس فیلوز ہیں۔ جو لڑکا گاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تھا اس کے بابت معلوم ہوا کہ کسی طلبہ تنظیم  کا بھی سرگرم کارکن ہے اور طلبہ کے مسائل و مشکلات سے لے کر علاقائی و ملکی معاملات کا گہرا ادراک رکھتا ہے ۔ مزے کی بات یہ کہ دوران ملاقات اس لڑکے کا پورا نام نہیں جان سکا کیونکہ سب اسے راجا کہ کر بلاتے رہے۔  خیر یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی ، بلتستان میں بھی خطاب ، لقب و دیگر ناموں سے اگلے کو مخاطب کرنے کی روایت موجود ہے۔  بعد میں معلوم ہوا کہ یہ راجا حسین خان مقپون تھے اور یہ میری ان سے پہلی اور آخری ملا قات تھی۔ تقریباً تین سال بعد جب میں باقاعدہ کالج کا طالبعلم بنا تب وہ کالج سے فارغ ہو کر جاچکے تھے ۔ اس ضمن میں میری معلومات ناقص ہیں کہ انہوں نے کالج میں یا کالج کے بعد تعلیمی سفر کی کتنی منزلیں طے کیں البتہ یہ سب جانتے ہیں کہ عملی زندگی میں انہوں نے اعلی مدارج سر کیے۔ 
 راجا حسین خان مقپون کو شاید اپنی کوتاہ عمری کی خبر تھی اسی لیے وہ اس مختصر زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر مسلسل محو عمل رہے۔ جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو صحافت کو بطور پیشہ اپنایا اور نام کمایا لیکن ان کی ساکھ اس سے قبل زمانہ طالبعلمی میں ہی ایک نوجوان سیاسی کارکن کی حیثیت سے قائم ہو چکی تھی ۔ اردو صحافت خاص کر گلگت بلتستان کی اردو صحافت کے لیے ان کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مختصراً اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ راجا حسین خان مقپون کی ذات اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ 
جیسے کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ میری ان سے صرف ایک بار بالمشافہ ملاقات ہوئی تھی۔ البتہ ان کے اخبارات اور مشترکہ دوستوں کی باتوں میں ان کی موجودگی نے ہمارے درمیان ایک تعلق ہمیشہ قائم رکھا ۔ حیرت انگیز طور پر آج تک کسی دوست سے ان کے بارے میں کوئی منفی جملہ سننے کو نہیں ملا ۔ سب نے ان کی عاجزی ، منکسر المزاجی ، دریادلی ، بزلہ سنجی اور دوست نواز طبیعت کا ہی ذکر کیا۔  اس زمانے میں جب ہر شخص منہ پر ہی تعریف کرنے اور سننے کا عادی ہوگیا ہے ، کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی آرا سننا ایک معجزے سے کم نہیں لگتا۔
ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ان کے صحافتی کیریئر پر نظر ڈالنے سے سامنے آتا ہے۔ اخبارات کی خبریں ، پیشکش، معیاراوردیگر چیزیں ہمیں پس پردہ موجود افراد کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہیں۔ بطور صحافی راجا حسین خان حق و صداقت کے علم بردار رہے ۔ ہمیشہ امن و آشتی کا پرچارکرتے رہے ۔ بیباکی ، ملک و ملت کےساتھ پیوستگی اوروفاداری جیسی خوبیاں بھی انکے قلم کے ذریعے نمایاں ہوتی رہیں ۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں کہ جو ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کرتی ہیں اور راجا حسین خان مقپون نے ان کی پاسداری کے لیے اپنے اخبارات کی بندش ، کردار کشی ، مالی مشکلات یہاں تک کہ قید و بند جیسی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ مگر ان کے پایہ استقلال میں لغزش نظر نہیں آئی۔

نوٹ ؛ راجا حسین خان مقپون کی تصویر ان کے بھائی راجا شاہ سلطان مقپون کے فیس بک البم سے لی گئ ہے۔  

Friday, May 11, 2012

منٹو کے پرستار




آج سے ٹھیک سو سال پہلے مئی ۱۱ انیس سو بارہ کو سعادت حسن پیدا ہوا۔ پتہ نہیں کیوں مگر اس نام کے ساتھ جب تک منٹو نہ لکھیں تب تک سعادت حسن مکمل نہیں ہوتا، ایک بے نام سی تشنگی رہ جاتی ہے۔ جیسے سر کے بغیر ایک خوبصورت جسم تراشا گیا ہو۔ حتی کہ شیکسپیر کے گلاب والے مشہور زمانہ قول کی بھی نفی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔  لیکن منٹو کا اضافہ کرتے ہی تصویر جیسے تمام تر جزئیات کے ساتھ مکمل ہوجاتی ہے ۔ مجسمے کو جیسے سر مل جاتا ہے ۔ لہذا ابتدائی جملہ ترمیم کے بعد دوبارہ لکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ 
آج سے ٹھیک سو سال پہلے مئی ۱۱ انیس سو بارہ کو سعادت حسن منٹو پیدا ہوا۔  اب بالکل ٹھیک شخص پیدا ہوا ہے ۔ مطلب افسانہ نگار منٹو ہی پیدا ہوا ہے۔ منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے "سعادت حسن مرجائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا" پرپتہ یہ چلتا ہے کہ منٹو کے بغیر سعادت حسن پیدا بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ 

منٹوغالب کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر کھری بات کرنے کا عادی تھا۔ انسان کو اچھائیوں اور برائیوں سمیت دیکھتا تھا اور افسوس غالب کے برعکس دکھاتا بھی تھا۔ اب اول الذکر عادت کی موجودگی تو خیر تھی پر موخرالذکر کی وجہ سے منٹو دوستوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا تھا۔ خود کو آئینے سے تشبیہ دیتا تھا کہ چہرہ جیسا ہوگا اس میں ویسا ہی دکھے گا۔ آنجہانیوں سے تو چلیں کوئی بھی بدتمیزی کرلیتا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جواب یا صفائی دینے کے لیے واپس نہیں آئے گے۔ پر زندوں سے یہ دل لگی آبیل مجھے مار کہنے والی بات ہے ۔اگر آج منٹو زندہ ہوتا تو فحاشی و عریانی کے علاوہ یقیناً ہتک عزت کے بھی  بے شمار مقدے بھگت رہا ہوتا۔ 
 مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل ہر طرف منٹو کے پرستاروں کی بہتات نظر آتی ہے ۔ ادیب ، اردو افسانے کاعام قاری ، صحافی ، سیاست دان ، سماجی کارکن اور خصوصیت کے ساتھ  نقاد بھی منٹو کی اس حرکت کو خوبی بنا کر پیش کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ جہاں موقع ملے منٹو کی حمایت میں خوب بڑھ چڑھ کر گفتگو فرمانے لگتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ۔
۔۱۔  وہ دیکھ رہے ہیں کہ منٹو کا سورج چڑھ رہا ہے تو اس کی پوجا بھی ضروری خیال کرتے ہیں ۔
۔۲۔ انہیں یہ بات معلوم ہے اورمکمل اطمینان بھی حاصل ہے کہ اب  منٹو میانی صاحب سے اٹھ کران کے بخیے ادھیڑنے نہیں آسکتا۔
  ورنہ آج وہ نازک مزاج پرستار جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور اپنی تعریف نہ کرنے والوں اور اپنی ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں سے بات کرنا تو درکنار ان کا وجود بھی اپنے قرب و جوار میں برداشت نہیں کرتے ، منٹو کی اس خوفناک خوبی کی کیسے تعریف کرسکتے ۔۔

Sunday, May 6, 2012

تم پوچھتے ہو

مولانا رومی کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ


تم پوچھتے ہو ۔ تم کون ہو
اس ناتواں وجود کے ساتھ
کیسے محبت  کر سکتے  ہو
 
مجھے کیا معلوم
میں کون ہوں
یا میں کہاں ہوں
 کیسے ہو سکتا ہےایک چھوٹی سی لہر
سمندر میں خود کو تلاش کرے

تم پوچھتے ہو
 تم اس  پاک روشنی  کے
 آس پاس
کیا ڈھونڈ رہے ہو
کہ جس کا تم بھی کبھی حصہ تھے

تم پوچھتے ہو
تم کیوں اس قفس کے قیدی بنے
کہ جس کا نام جسم ہے
پر اب بھی یہ دعوی کہ تم
ایک  آزاد پنچھی ہو

میں یہ کیسے جانوں
کیسے میں نے اپنا رستہ کھودیا
لیکن میں یقین سے کہتا ہوں
کہ محبت کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے پہلے
میں بالکل سیدھی راہ پر تھا

ترجمہ کرنا مجھے پسند ہے ۔ بڑا پر لطف کام لگتا  ہے ۔ پر بعض اوقات بڑی دقت بھی پیش آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پیشہ ور مترجم نہیں بنا ۔ اس کام کے لیے جتنی مستقل مزاجی درکار ہے ، مجھ میں شاید اتنی نہیں ۔۔ البتہ آج بیٹھے بیٹھے ایک غلطی سرزرد ہو ہی گئی ۔  اول تو شاعری سمجھنا  مشکل پھر فارسی  اور اس پر مولانا رومی کی شاعری ۔ رہی سہی کسر اس ترجمے نے پوری کردی ہے ۔ اب آپ بھی اس غلطی کی سزا بھگتیں ۔۔۔

Wednesday, May 2, 2012

شور

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ ء خون نہ نکلا

شعر تو ہم نے لکھ دیا ہے پر اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بات کیا کرنے والے تھے جس کے لیے یہ شعر مناسب معلوم ہوا تھا ۔ اب عام ڈگر کے مطابق گزری ہوئی جوانی اور تیز حافظے کو یاد کریں تو ڈر ہے کہیں آپ کے دل میں ہماری کوئی غلط تصویر نہ بن جائے ۔۔ بھئی  ہم ابھی ماشااللہ جوان رعنا ہیں اور کچھ عرصہ مزید رہنا بھی چاہتے ہیں ۔۔ یعنی یہی کوئی تیس ، چالیس سال مزید ۔۔
لو جی شکر الحمداللہ اس بے مقصدی تمہید کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں وہ موضوع یاد آگیا جس پر ہم نے آج قلم اٹھانا تھا ۔۔ اوہ ہو قلم تو اب فقط کہنے کو اٹھاتے ہیں یعنی لکھنا تھا۔  آپ دیکھ رہے ہیں یہاں ایک نیا موضوع سامنے آگیا ہے لیکن اس کو فی الحال کسی اورمناسب  وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور آج اسی موضوع تک خود کو محدود رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ، جسے ابھی تک بیان بھی نہیں کر سکے ہیں ۔۔ بات سے بات نکلنے والی کہاوت تو آپ نے سنی ہوگی ۔ اگر نہیں سنی ہے تو سن لیں کہ اگر آپ کے پاس کبھی کسی موضوع پر بولنے کو کچھ نہ ہو تو آپ بس کہیں سے بات شروع کر دیں۔ بات سے بات نکلے گی اور سلسلہ آگے بڑھے گا ۔۔  یہ ترکیب بےحد آزمودہ اور کارگر ہے۔۔ نفع و نقصان کے ذمہ دار البتہ آُپ خود ہوں گے ۔۔


 کچھ عرصے قبل ہمارا تعارف ایک صاحب سے کچھ اس طرح کرایا گیا کہ ، ان سے ملیے یہ ہیں جناب فلاں صاحب اور آپ بلاگر ہیں ۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے بلاگنگ کے بارے میں سن رکھا تھا ، اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور ان کے بلاگ کے ضمن میں کافی اشتیاق ظاہر کیا۔۔۔ ورنہ خدانخواستہ  اگر ہم  نے ان سے اس قسم کے سوال پوچھے ہوتے کہ جناب کا دفتر کہاں ہے یا یہ کمپنی مقامی ہے یا بین الاقوامی یا جناب کی تنخواہ کتنی ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ ، تو نہ صرف خود کو بلکہ اس دوست کو بھی شرمندہ کرتے جس نے ہمارا تعارف کراتے  ہوئے بھی کافی  فیاضی دکھائی تھی ۔۔


 ہمارے ایک اور دوست  جب  اپنے بلاگر دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو  ان کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے وہ کسی اور ہی دنیا کے باشندے ہیں ۔  اسی طرح ایک دفعہ ایک خبر ہماری نظروں سے گزری کہ جس میں پاکستانی بلاگرز کے کراچی میں ہونے والی ایک کانفرنس کا ذکر تھا ۔ ساتھ ہی تصویریں بھی تھیں جنہیں دیکھ کر خوش ہوئے کہ سب ہم جیسے ہی تھے ۔۔


لگ بھگ پندرہ سال پیشتر جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو سب سے پہلی حیرت انگیز خوشی جو ہمیں ملی وہ یہ تھی  کہ کلاس میں جانے نہ جانے کا فیصلہ ہم خود کر سکتے تھے ۔ اب آپ سے کیا چھپانا چند دن تو ہمیں یقین کرنے میں لگے تھے ۔ مطلب  کلاسوں میں بدستور جاتے رہے ۔۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب ہم نے وہاں ایک  ایسی مخلوق دیکھی جسے اس نئی اور آزاد دنیا کے درجہ اول کے شہری سمجھ لیں ، یعنی مختلف سیاسی تنظیموں کے اراکین۔  ان کی تو شان ہی نرالی تھی ۔۔ کالج میں ایسے آتے جاتے تھے جیسے کالج پر احسان کر رہے ہوں۔ طلبہ خاص کر نئے آنے والے ان سے راستہ چراتے تھے۔ ہم البتہ اس معاملے میں خوش قسمت اس طرح ٹھہرے کہ ہم ان میں سے اکثریت کے اصلی چہروں سے واقف تھے ۔  تقریباً ہر طلبہ تنظیم میں ہمارے دوست موجود تھے ۔ یوں  ایک طرف تو بڑی سہولت حاصل ہوگئی جبکہ دوسری طرف اب ہر طرف سے ہمیں اپنی اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے دعوتیں ملنے لگیں۔ اس صورت حال میں ہم نے ایک عجیب فیصلہ کرلیا کہ جس پارٹی میں بڑا عہدہ ملے اس میں شمولیت اختیار کی جائے ۔ پر افسوس ہمیں چھوٹے موٹے عہدوں سے ٹالنے کی کوشش کی گئی ، کیونکہ وہاں امیدواروں کی ایک طویل قطار پہلے سے انتظارمیں کھڑی تھی ۔ 
قصہ مختصر ہم نے صلاح مشورے کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی بنا ڈالی اور یوں خود ہی بانی اور خود ہی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 

آج کل آپ بھی چہار جانب بلاگنگ کا شور سن رہے ہوں گے ۔  لوگ اپنی گفتگووں میں  بے حد شد و مد کے ساتھ مختلف بلاگز اور بلاگرز کا حوالہ دینے لگے ہیں ۔ اپنے بلاگر دوستوں کا ذکربھی  بڑے زور و شور سے کرتے ہیں ۔ الغرض ہم نے جب یہ سب دیکھا تو پہلے کوشش کی کہ کسی بلاگ کو فالو کیا جائے پھر سوچا کسی بلاگر سے دوستی کی جائے ۔ کافی غورو حوض کے بعد یہاں بھی ہم نے ایک اچھوتا فیصلہ کیا ، یعنی اس سمندر میں کودنے کا فیصلہ ۔ جب یہاں آ کر ادھر ادھر  دیکھا تو ہمیں درج بالا یہ شعر یاد آگیا جس سے ہم نے آج اپنی بات شروع کی تھی ۔ مجھے امید ہے آپ اس شعر کے بر محل یاد آنے کی داد ضرور دیں گے ۔۔  اگر مجھے نہیں تو کم از کم شاعر کو ہی دیجیے جس نے یہ خوبصورت شعر کہا۔۔