Pages

Sunday, May 20, 2012

راجا حسین خان مقپون


 صحافی ، سماجی کارکن، سیاست دان راجا حسین خان مقپون پچھلے دنوں ایک حادثے میں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ۔ان کی ناگہانی موت سے بلاشبہ گلگت بلتستان کی صحافت اور سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جو کہ اب شاید ہی پر ہو۔
کچھ دنوں سے یہ سوچ مجھے بار بار ستارہی ہے کہ ایک ہی سکول ، کالج میں پڑھنے اور ایک ہی چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود میری ان سے فقط ایک ہی ملاقات کیوں ہوئی ۔  بے شک گزشتہ کچھ سالوں سے ہم اسلام آباد جیسے نسبتاً بڑے شہر میں رہ رہے تھے لیکن یہاں بھی کسی تقریب ، محفل میں یا سر راہ ہم کبھی نہیں ملے۔  حالانکہ دوست احباب اور جان پہچان والوں  کے علاوہ بعض ایسے لوگوں سے بھی آمنا سامنا رہتا ہے جو نہ رہے تو زیادہ اچھا ہو۔ اس بلاگ میں راجا مرحوم سے ہونے والی اس اکلوتی ملاقات کا احوال اور چند تاثرات قلمبند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کے درجات  بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے ۔ آمین

 ڈگری کالج ، سکردو شہر کا اہم اور قدیم علمی ادارہ ہے ۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہوں کہ میں نے بھی عرصہ دو سال یہاں تحصیل علم میں گزارے۔  اس ادارے کے ساتھ  یادوں کی ایک کہکشاں آباد ہے۔  دراصل باقاعدہ طالبعلم بننے سے قبل بھی ڈگری کالج سےایک تعلق قائم تھا ۔ وہ کچھ ایسے کہ گرمیوں میں جب شہر کے سارے کھیت کاشت کاری کی وجہ سے کھیلنے کے لیے دستیاب نہیں رہتے تھے تب میدانوں کی قلت پیدا ہوجاتی تھی ۔ شہر میں کھیل کے باقاعدہ میدان کم تھے اور جو تھے وہ سکولز اور کالجز میں تھے ۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ سکول یا کالج پڑھائی کے لیے تو سب کا ہوتا ہے پر شام کے وقت کھیلنے کے لیے صرف اسی محلے کے لڑکوں کا ہوتا ہے کہ جس میں وہ واقع ہو۔ اب یہ ہماری خوش بختی سمجھ لیجیے کہ ڈگری کالج ہمارے محلے میں واقع ہے یوں ڈگری کالج سے ہماری شناسائی بہت پرانی تھی۔ 
ایک دن ایک دوست کے ساتھ اس کے کسی کام سے ڈگری کالج جانا ہوا ۔ دلچسپ  بات یہ ہے کہ یہ بھی کالج میں داخل ہونے سے پہلے کا قصہ ہے ۔ میرے دوست کو کالج ہوسٹل میں مقیم کسی طالب علم سے ملنا تھا۔  اس روز پہلی بار پتہ چلا کہ ہوسٹل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ورنہ ابھی تک صرف ہوٹل سے ہی واقف تھا ، خوشگوار حیرت یہ جان کر ہوئی تھی کہ جس کالج میں بچپن سے آنا جانا ہے وہاں ہوسٹل جیسی اہم ترین شے بھی موجود ہے اور اس موجودگی سے ہم یکسر بےخبر رہے۔ ہاسٹل دیکھ کر یہ خوشی یا حیرت شاید اس لیے ہوئی تھی کہ ہماری آنے والی زندگی میں اس نے اہم کردار ادا کرنا تھا۔
جب ہم اپنے میزبان کے کمرے میں پہنچے تب وہاں چار لڑکے سر جوَڑے لوڈو کھیل رہے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر ہمارا میزبان اس مقابلے سے دستبردار ہوا اور ہم سے گپ شپ شروع کردی۔  گفتگو ابھی شروع ہوِئی تھی کہ ایک دبلا پتلا ، پھرتیلا  لڑکا گاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔  پتہ  یہ چلا کہ یہ سب میرے دوست کے کلاس فیلوز ہیں۔ جو لڑکا گاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تھا اس کے بابت معلوم ہوا کہ کسی طلبہ تنظیم  کا بھی سرگرم کارکن ہے اور طلبہ کے مسائل و مشکلات سے لے کر علاقائی و ملکی معاملات کا گہرا ادراک رکھتا ہے ۔ مزے کی بات یہ کہ دوران ملاقات اس لڑکے کا پورا نام نہیں جان سکا کیونکہ سب اسے راجا کہ کر بلاتے رہے۔  خیر یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی ، بلتستان میں بھی خطاب ، لقب و دیگر ناموں سے اگلے کو مخاطب کرنے کی روایت موجود ہے۔  بعد میں معلوم ہوا کہ یہ راجا حسین خان مقپون تھے اور یہ میری ان سے پہلی اور آخری ملا قات تھی۔ تقریباً تین سال بعد جب میں باقاعدہ کالج کا طالبعلم بنا تب وہ کالج سے فارغ ہو کر جاچکے تھے ۔ اس ضمن میں میری معلومات ناقص ہیں کہ انہوں نے کالج میں یا کالج کے بعد تعلیمی سفر کی کتنی منزلیں طے کیں البتہ یہ سب جانتے ہیں کہ عملی زندگی میں انہوں نے اعلی مدارج سر کیے۔ 
 راجا حسین خان مقپون کو شاید اپنی کوتاہ عمری کی خبر تھی اسی لیے وہ اس مختصر زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر مسلسل محو عمل رہے۔ جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو صحافت کو بطور پیشہ اپنایا اور نام کمایا لیکن ان کی ساکھ اس سے قبل زمانہ طالبعلمی میں ہی ایک نوجوان سیاسی کارکن کی حیثیت سے قائم ہو چکی تھی ۔ اردو صحافت خاص کر گلگت بلتستان کی اردو صحافت کے لیے ان کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مختصراً اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ راجا حسین خان مقپون کی ذات اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ 
جیسے کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ میری ان سے صرف ایک بار بالمشافہ ملاقات ہوئی تھی۔ البتہ ان کے اخبارات اور مشترکہ دوستوں کی باتوں میں ان کی موجودگی نے ہمارے درمیان ایک تعلق ہمیشہ قائم رکھا ۔ حیرت انگیز طور پر آج تک کسی دوست سے ان کے بارے میں کوئی منفی جملہ سننے کو نہیں ملا ۔ سب نے ان کی عاجزی ، منکسر المزاجی ، دریادلی ، بزلہ سنجی اور دوست نواز طبیعت کا ہی ذکر کیا۔  اس زمانے میں جب ہر شخص منہ پر ہی تعریف کرنے اور سننے کا عادی ہوگیا ہے ، کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی آرا سننا ایک معجزے سے کم نہیں لگتا۔
ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ان کے صحافتی کیریئر پر نظر ڈالنے سے سامنے آتا ہے۔ اخبارات کی خبریں ، پیشکش، معیاراوردیگر چیزیں ہمیں پس پردہ موجود افراد کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہیں۔ بطور صحافی راجا حسین خان حق و صداقت کے علم بردار رہے ۔ ہمیشہ امن و آشتی کا پرچارکرتے رہے ۔ بیباکی ، ملک و ملت کےساتھ پیوستگی اوروفاداری جیسی خوبیاں بھی انکے قلم کے ذریعے نمایاں ہوتی رہیں ۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں کہ جو ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کرتی ہیں اور راجا حسین خان مقپون نے ان کی پاسداری کے لیے اپنے اخبارات کی بندش ، کردار کشی ، مالی مشکلات یہاں تک کہ قید و بند جیسی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ مگر ان کے پایہ استقلال میں لغزش نظر نہیں آئی۔

نوٹ ؛ راجا حسین خان مقپون کی تصویر ان کے بھائی راجا شاہ سلطان مقپون کے فیس بک البم سے لی گئ ہے۔  

1 comment:

  1. Nice - Good I didnt know about him. We should recognize the services of people who are dedicated and sincere to our homeland.

    ReplyDelete