Pages

Wednesday, May 2, 2012

شور

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ ء خون نہ نکلا

شعر تو ہم نے لکھ دیا ہے پر اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بات کیا کرنے والے تھے جس کے لیے یہ شعر مناسب معلوم ہوا تھا ۔ اب عام ڈگر کے مطابق گزری ہوئی جوانی اور تیز حافظے کو یاد کریں تو ڈر ہے کہیں آپ کے دل میں ہماری کوئی غلط تصویر نہ بن جائے ۔۔ بھئی  ہم ابھی ماشااللہ جوان رعنا ہیں اور کچھ عرصہ مزید رہنا بھی چاہتے ہیں ۔۔ یعنی یہی کوئی تیس ، چالیس سال مزید ۔۔
لو جی شکر الحمداللہ اس بے مقصدی تمہید کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں وہ موضوع یاد آگیا جس پر ہم نے آج قلم اٹھانا تھا ۔۔ اوہ ہو قلم تو اب فقط کہنے کو اٹھاتے ہیں یعنی لکھنا تھا۔  آپ دیکھ رہے ہیں یہاں ایک نیا موضوع سامنے آگیا ہے لیکن اس کو فی الحال کسی اورمناسب  وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور آج اسی موضوع تک خود کو محدود رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ، جسے ابھی تک بیان بھی نہیں کر سکے ہیں ۔۔ بات سے بات نکلنے والی کہاوت تو آپ نے سنی ہوگی ۔ اگر نہیں سنی ہے تو سن لیں کہ اگر آپ کے پاس کبھی کسی موضوع پر بولنے کو کچھ نہ ہو تو آپ بس کہیں سے بات شروع کر دیں۔ بات سے بات نکلے گی اور سلسلہ آگے بڑھے گا ۔۔  یہ ترکیب بےحد آزمودہ اور کارگر ہے۔۔ نفع و نقصان کے ذمہ دار البتہ آُپ خود ہوں گے ۔۔


 کچھ عرصے قبل ہمارا تعارف ایک صاحب سے کچھ اس طرح کرایا گیا کہ ، ان سے ملیے یہ ہیں جناب فلاں صاحب اور آپ بلاگر ہیں ۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے بلاگنگ کے بارے میں سن رکھا تھا ، اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور ان کے بلاگ کے ضمن میں کافی اشتیاق ظاہر کیا۔۔۔ ورنہ خدانخواستہ  اگر ہم  نے ان سے اس قسم کے سوال پوچھے ہوتے کہ جناب کا دفتر کہاں ہے یا یہ کمپنی مقامی ہے یا بین الاقوامی یا جناب کی تنخواہ کتنی ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ ، تو نہ صرف خود کو بلکہ اس دوست کو بھی شرمندہ کرتے جس نے ہمارا تعارف کراتے  ہوئے بھی کافی  فیاضی دکھائی تھی ۔۔


 ہمارے ایک اور دوست  جب  اپنے بلاگر دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو  ان کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے وہ کسی اور ہی دنیا کے باشندے ہیں ۔  اسی طرح ایک دفعہ ایک خبر ہماری نظروں سے گزری کہ جس میں پاکستانی بلاگرز کے کراچی میں ہونے والی ایک کانفرنس کا ذکر تھا ۔ ساتھ ہی تصویریں بھی تھیں جنہیں دیکھ کر خوش ہوئے کہ سب ہم جیسے ہی تھے ۔۔


لگ بھگ پندرہ سال پیشتر جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو سب سے پہلی حیرت انگیز خوشی جو ہمیں ملی وہ یہ تھی  کہ کلاس میں جانے نہ جانے کا فیصلہ ہم خود کر سکتے تھے ۔ اب آپ سے کیا چھپانا چند دن تو ہمیں یقین کرنے میں لگے تھے ۔ مطلب  کلاسوں میں بدستور جاتے رہے ۔۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب ہم نے وہاں ایک  ایسی مخلوق دیکھی جسے اس نئی اور آزاد دنیا کے درجہ اول کے شہری سمجھ لیں ، یعنی مختلف سیاسی تنظیموں کے اراکین۔  ان کی تو شان ہی نرالی تھی ۔۔ کالج میں ایسے آتے جاتے تھے جیسے کالج پر احسان کر رہے ہوں۔ طلبہ خاص کر نئے آنے والے ان سے راستہ چراتے تھے۔ ہم البتہ اس معاملے میں خوش قسمت اس طرح ٹھہرے کہ ہم ان میں سے اکثریت کے اصلی چہروں سے واقف تھے ۔  تقریباً ہر طلبہ تنظیم میں ہمارے دوست موجود تھے ۔ یوں  ایک طرف تو بڑی سہولت حاصل ہوگئی جبکہ دوسری طرف اب ہر طرف سے ہمیں اپنی اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے دعوتیں ملنے لگیں۔ اس صورت حال میں ہم نے ایک عجیب فیصلہ کرلیا کہ جس پارٹی میں بڑا عہدہ ملے اس میں شمولیت اختیار کی جائے ۔ پر افسوس ہمیں چھوٹے موٹے عہدوں سے ٹالنے کی کوشش کی گئی ، کیونکہ وہاں امیدواروں کی ایک طویل قطار پہلے سے انتظارمیں کھڑی تھی ۔ 
قصہ مختصر ہم نے صلاح مشورے کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی بنا ڈالی اور یوں خود ہی بانی اور خود ہی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 

آج کل آپ بھی چہار جانب بلاگنگ کا شور سن رہے ہوں گے ۔  لوگ اپنی گفتگووں میں  بے حد شد و مد کے ساتھ مختلف بلاگز اور بلاگرز کا حوالہ دینے لگے ہیں ۔ اپنے بلاگر دوستوں کا ذکربھی  بڑے زور و شور سے کرتے ہیں ۔ الغرض ہم نے جب یہ سب دیکھا تو پہلے کوشش کی کہ کسی بلاگ کو فالو کیا جائے پھر سوچا کسی بلاگر سے دوستی کی جائے ۔ کافی غورو حوض کے بعد یہاں بھی ہم نے ایک اچھوتا فیصلہ کیا ، یعنی اس سمندر میں کودنے کا فیصلہ ۔ جب یہاں آ کر ادھر ادھر  دیکھا تو ہمیں درج بالا یہ شعر یاد آگیا جس سے ہم نے آج اپنی بات شروع کی تھی ۔ مجھے امید ہے آپ اس شعر کے بر محل یاد آنے کی داد ضرور دیں گے ۔۔  اگر مجھے نہیں تو کم از کم شاعر کو ہی دیجیے جس نے یہ خوبصورت شعر کہا۔۔

3 comments:

  1. Zafar .... Masha ALLAH, keep it up. waqyi acha laga.

    ReplyDelete
  2. Zabardast start kasal..wish you goodluck :)

    ReplyDelete
  3. Waqaee - Ghalib ka shair acha hai! Pasand aaya. and good going :)

    ReplyDelete