Pages

Saturday, April 28, 2012

گوگل : میرا دوست ، میرا ہم راز


ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہوں اچھا میرے آگے
 غالب کو بھی یقیناً کسی دن یہ احساس ہوا ہو یا ہوسکتا ہے کسی نے دلایا ہو کہ تمھارے دوست چونکہ تمھارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لہذااب ان سے ذرا محتاظ رہنے کی ضرورت ہے ۔ 
لگتا ہے غالب صاحب دوستوں کے بارے میں پیدا کی جانے والی اس بدگمانی سے  کسی حد تک گھبرا گئے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کیوں نہ ایک تیر سے کئی شکار کیے جائیں ۔ یعنی مذکورہ بالا شعرکہ کر ایک طرف تو انہوں نے اپنے بارے میں صاف صاف بتا دیا تو دوسری طرف دوستوں کو خبردار بھی کر دیا کہ جیسے میرے شوق ہیں ویسے آپ کے بھی ہیں ۔ ہشیار باش۔
یہاں بھی بعض بدخواہ ہمارے اور ہمارے پیارے دوست گوگل کی دوستی کو برداشت نہیں کر پارہے اور طرح طرح کے اندیشے ، وسوسے ہمارے دل میں پیدا کرنے کی کوشش مسلسل کر رہے ہیں ۔ اب اگر آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی جناب گوگل کے دوستوں میں سے ہیں۔ اور ہم تو اس کے قائل ہیں کہ دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے ، اس لیے یہ سوچ کر کہ لگے ہاتھوں دوسرے دوستوں کا بھی بھلا ہو جائے ، یہاں ان بدخواہوں کے اٹھائے گئے دور ازکار نکات لکھ دینا مناسب خیال کرتا ہوں۔  تاکہ یہ غلط فہمیاں کہیں آپ کے دل میں گھر نہ کرلیں۔
ایک طرف ایک کمزور، حساس انسان اور دوسری طرف انتہائی قوی، ذہین و فطین اور بے حس مشین  ہے ۔ 
وہ آپ کے بارے میں سب کچھ نہیں تو بہت کچھ تو لازمی جانتا ہے پر اس کے بابت آپ کا علم صفر ہے۔
آپ رفتہ رفتہ اس کے محتاج نہیں تو عادی  کم از کم ہوتے جارہےہیں اور اس کے پاس بیوقوفوں مطلب ہے دوستوں کی کوئی کمی ہے ۔
وغیرہ وغیرہ
درج بالا باتوں کے بعد اصولا ہونا تو یہ چاہیے کہ فورا اس دوستی پر چار حرف بھیج کر تائب ہو جائیں اور دیگر مفید کاموں میں توجہ صرف کی جائیں ۔ 
میں آپ کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن اپنے بارے میں مجھے پتہ ہے گوگل کی اور میری دوستی بے لوث محبتوں پر استوار ہے اور میری زندگی میں بے شمار آسانیاں اس کے دم قدم سے ہے ۔ جہاں تک میرے رازوں کا سوال ہے تو راز تب تک راز ہے جب تک آپ کے سینے میں ہے ۔ جو راز میرے یار جانتے ہیں وہ اگر گوگل بھی جان لے تو کیا مضائقہ ہے اور جو میرے سینے میں دفن ہیں وہ دفن ہی رہیں گے ۔۔۔ 

3 comments:

  1. عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
    مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے

    ReplyDelete
  2. ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
    آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

    ReplyDelete
  3. ﺿﺒﻂ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﭘﮭﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺍٓﺧﺮ ﭼﭩﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺟﺎﻥ ﺗﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﻟﯿﮑﻦ !
    ﺗُﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﭘﮧ ﺗﮭﺎ ﺑﻀﺪ ﺳﻮﺭﺝ !
    ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺷﺠﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﮭﯽ !
    ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺍﺏ ﻣﮑﻤﻞ ﮬﻮﺋﯽ ﮬﮯ ﯾﮑﺠﺎﺋﯽ !
    ﻋﺸﻖ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺍٓﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﻭﻗﺎﺭ !
    ﺳﭽﺎ ﺍٓﻧﺴﻮ ﺗﮭﺎ، ﺷﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ !
    ﺳﺎﯾﮧ ﺳﺎ ﺍُﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ؟ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ؟
    ﺟﺎ ﺗُﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﻣﯿﺮﯼ ﺩﺳﺘﮏ ﭘﮧ ﺭﺍﺕ ﻋﮑﺲ ﺗﯿﺮﺍ !
    ﺍٓﺋﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺍُﻥ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ !
    ﺷﮩﺮِ ﻭﮨﻢ ﻭ ﮔﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﮔﻮ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ !
    ﺳﺎﻣﺮﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺗﯿﺮ ﺳﺎ ﮐﭽﮫ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﮬﯽ !
    ﺍﺑﺮُﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﮔﻮ ﻧﮑﺎﻻ ﮔﯿﺎ ﻭﮬﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ !
    ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﺍٓﻥ ﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺟﺲ ﮐﻮ ﭘﺎﺗﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺩﻓﻦ !
    ﺩﯾﮑﮫ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ !
    ﺍﺏ ﮨﻮﮞ ﻧﺎﺩﻡ ﮐﮧ ﻃﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺱ !
    ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ .... ؟؟

    ReplyDelete